Thursday, July 29, 2010

آخر وہ جگہ آ گئی جہاں سے فضا میں تیل، دھویں اور انسانی اعضا کے جلنے کے ملی جلی بو محسوس ہونے لگی۔

مسافر بردار طیارے کا حادثہ اسلام آباد میں واقع مارگلہ پہاڑی کی ایک ایسی چوٹی پر پیش آیا جس تک پہنچنے کے لیے نہ تو کوئی سڑک تھی اور نہ ہی کوئی ٹریک۔ حادثے کے مقام تک ناہموار اور اونچی نیچی ڈھلانوں اور پگڈنڈیوں کے ذریعے ہی جایا جا سکتا ہے۔
بعض مقامات پر یہ پگڈنڈیاں بھی نہیں ہیں اور صرف جھاڑیاں پکڑ کر ہی مزید اوپر جانا ممکن ہو سکتا ہے۔

اس پر مسلسل بارش سے ہونے والی پھسلن صورتحال کو اور مشکل کر رہی تھی۔ اس صورتحال میں پولیس کے ارکان، امدادی کارکن، عام شہری اور صحافی خاموشی سے جائے حادثہ کی جانب بڑھ رہے تھے۔



ان کی تعداد کافی کم تھی اور وہ ایک دوسرے سے کافی فاصلہ پر چل رہے تھے۔ راستے میں پیچھے سے کسی امدادی کارکن کی آواز آتی: ’بھائی صاحب! رکیں، ہمیں بھی آگے جانا ہے‘۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے کے بعد مشکل ڈھلان یا چڑھائی آ جاتی اور امدادی کارکن کھڑے ہو کر آگے جانے کا مناسب راستہ تلاش کرتے ہوئے نظر آتے۔

لیکن ان امدادی کارکنوں میں سے صرف چند ایک کے پاس ایسے ضروری آلات تھے جو ایسی صورتِ حال میں درکار ہوتے ہیں باقی لوگ اپنے حوصلے کی بنا پر ہی بڑھ رہے تھے۔

جیسے جیسے حادثے کا مقام کے قریب آ رہا تھا راستہ اور بھی کٹھن ہوتا جا رہا تھا۔ کچھ جگہ تو امدادی کارکنوں کی مدد کے بغیر چڑھائی سر کرنا ممکن ہی نہیں تھا۔

آخر وہ جگہ آ گئی جہاں سے فضا میں تیل، دھویں اور انسانی اعضا کے جلنے کے ملی جلی بو محسوس ہونے لگی۔

خیال تھا کہ جائے حادثہ پر بھرپور امدادی سرگرمیاں شروع ہو چکی ہوں گی لیکن ایسا نہیں تھا۔ بہت کم تھے جو امدادی کام کر رہے تھے زیادہ تر صرف جہاز کے ملبے کی طرف دیکھ رہے تھے جس کا زیادہ تر حصہ آگ کی لپیٹ میں تھا لیکن کچھ بڑے بڑے ٹکڑوں کی آگ بجھ چکی تھی۔

حادثہ
چند ہی منٹ بعد آرمی کا ایک ہیلی کاپٹر آیا اور دو چکر لگانے کے بعد واپس چلا گیا۔
میں حادثے کےمقام تک تقریباً ڈیڑھ دو گھنٹے کے بعد پہچنا تھا لیکن وہاں امدادی کارکنوں سے زیادہ اسلام آباد پولیس اور انسداد دہشت گردی کے اہلکار نظر آئے۔

چند لحموں کے بعد اسلام آباد پولیس کے ڈی آئی جی بنیامین نے بلند آواز میں کہا کہ امدادی کارروائیاں شروع کی جانی چاہیں۔ اتنا کہہ کر وہ ملبے کی جانب چلے گئے لیکن ان کے ساتھ نہ تو امدادی کارکن گئے اور نہ ہی اسلام آباد پولیس کا کوئی اہلکار۔ ڈی آئی جی نے ملبے کے ڈھیر کے اوپر سے، جس کے نیچے نہ جانے کتنے لوگوں کے پیارے دبے ہوئے تھے، غصے میں کہا کہ لگتا ہے کہ سب کو بلانے کے لیے لاٹھی چارج کرنا پڑے گا۔

اس کے بعد آوازیں بلند ہونا شروع ہوئیں کہ ’چلیں جی امدادی کارروائیاں شروع کریں‘۔

اس کے بعد فوراًً بعد ہی سادہ کپڑوں میں ملبوس ایک اہلکار نے بلند آواز میں کہا کہ ہیلی کاپٹر آگ بجھانے کے لیے پانی لے کر آ رہا ہے سب ایک طرف ہو جائیں۔ امدادی کام رک گیا۔ چند ہی منٹ بعد آرمی کا ایک ہیلی کاپٹر آیا اور دو چکر لگانے کے بعد واپس چلا گیا۔

اس دوران ایک بات واضح طور پر محسوس کی جا سکتی تھی کہ مختلف سرکاری اداروں کے امدادی کارکنوں میں کسی قسم کا ربط نہیں تھا اور نہ ہی اس جگہ امدادی کارروائیوں کی کوئی نگران اتھارٹی نظر آئی۔

ڈی آئی جی سے جب پوچھا کہ کتنے افراد کی لاشوں یا زخمیوں کو باہر نکلا جا چکا ہے تو انھوں نے کہا کہ بتایا جا رہا کہ پانچ افراد کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے ہسپتال منتقل کیا گیا لیکن ان کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ وہ زندہ تھے کہ نہیں۔

ان سے جب پوچھا کہ کیا جہاز کا سارا ملبہ یہیں ہے؟ تو انھوں نے کہا کہ کچھ چوٹی پر اور کچھ چوٹی کی دوسری جانب بھی ہے۔ تو کیا وہاں بھی امدادی کارروائیاں جاری ہیں، اس پر انھوں نے کہا کہ ہاں وہاں بھی امدادی کارکن کام کر رہے ہیں۔

کارکنوں کی تعداد اور نگرانی کرنے والے کے بار ے میں اس وقت جائے حادثہ پر موجود سب سے سینیئر افسر کو بھی نہیں معلوم تھا۔

حادثہ
کچھ دیر بعد ہیلی کاپٹر دوبارہ آیا اور اوپر ایک عدد رسی اور تھیلا پھینکا جس میں کفن تھے۔
ہیلی کاپٹر سے پانی گرانے کا اعلان دو بار کیا گیا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اس کے بعد کچھ امدادی کارکنوں نے دوبارہ کام شروع کیا۔ اور جہاز کا وہ ملبہ جو آگ کی زد میں نہیں آیا تھا ہٹا کر مسافروں کی تلاش شروع کر دی۔

اسی دوران چند امدادی کارکنوں نے جائے حادثے کے سامنے والے حصوں کو کلہاڑی کے ذریعے کاٹنا شروع کیا۔ یہ عمل جاری تھا کہ نیچے سے ایک الیکڑک کٹر پہنچ گیا جس کی مدد سے دو تین درختوں کو کاٹنے میں آسانی ہوئی۔

اس کے کچھ دیر بعد ہیلی کاپٹر دوبارہ آیا اور اوپر ایک عدد رسی اور تھیلا پھینکا جس میں کفن تھے۔

وہاں گزرنے والے تقریباً دو گھنٹوں میں انسانی لوتھڑوں کی تین عدد گٹھڑیاں بن چکی تھیں جن میں نجانے کتنے مسافروں کے اعضا تھے۔ ان اعضا کی حالت ناقابلِ بیان ہے۔ جاں بحق ہونے والوں کی شناخت کسی کے لیے بھی ممکن نہیں تھی۔

پھر ہیلی کاپٹر سے پھینکے گئے کفن جنھیں بیگ کے طور پر استعمال کیا جا رہا تھا ختم ہو گئے اور لوگوں سے کہا گیا کہ ان کے پاس چادر یا اس طرح کی کوئی بھی چیز ہو تو اسے دے دیں۔

اسی دوران ایک امدادی کارکن کی آواز آئی ’یہ دیکھیں جلے ہوئے ہاتھ میں انگوٹھی، لگتا ہے کہ کسی خاتون مسافر کی لاش ہے‘۔

لیکن اس لاش کے اوپر جہاز کا ایک بھاری ٹکڑا پڑا ہوا تھا جسے ہٹانا امدادی کارکنوں کے لیے آسان نہیں تھا۔

ایک جھلسی ہوئی لاش اسی دوران پہاڑ کے بالائی حصے پر سے نیچے لائی گئی۔ یہ پہلی لاش تھی جس کے لیے وہاں موجود گنتی کے چند سٹیچرز میں سے ایک کا استعمال ہوا۔

حاثہ
گنتی کے سٹریچر تھے جن کے استعمال کی نوبت کم ہی آئی۔
شاید وہاں موجود امدادی کارکنوں کو اندازہ ہو گیا تھا کہ ملبہ ہٹانے کے لیے ضروری آلات اور مشنری کی عدم موجودگی اور جہاز کے بڑے ٹکڑوں میں لگی آگ کی وجہ سے امدادی کارروائیوں میں اندازے سے زیادہ وقت درکار تھا اس لیے وائرلیس پر پیغام نشر کیے جا رہے تھے کہ ایمرجنسی لائٹیں چاہیں۔

سست روی اور بے ترتیب امدادی کارروائیوں کو دیکھتے ہوئے جب واپسی کا سفر شروع کیا تو عام شہریوں کی ایک بڑی تعداد جائے حادثہ کی طرف جانے کی کوششیں کرتی دکھائی دی۔ کوئی پھسل رہا تھا تو کوئی اوپر سے نیچے آنے والوں سے پوچھ رہا تھا کہ ہوا کیا ہے؟

کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد ایک جگہ چند سرکاری امدادی کارکن نظر آئے۔ انھوں نے ایک گندے سے کپڑے میں لاش لپیٹ رکھی تھی۔ انھوں نے بتایا کہ اب تک ملنے والی یہ پہلی لاش ہے جس کا چہرہ قابل شناخت ہے۔ اور یہ لاش جائے حادثہ سے کافی نیچے ایک درخت میں اٹکی ہوئی تھی۔

ان سے پوچھا کہ وہ لاش کو کاندھے پر رکھ کر کیوں لے کر جا رہے ہیں تو انھوں نے کہا کہ اوپر جائے حادثہ پر ہی امدادی سامان پورا نہیں ہے تو نیچے ہمارے پاس کیا ہو گا۔

خیر وہاں سے جب اوپر سڑک پر پہنچا تو ہر طرف فوجی اہلکار نظر آئے۔ میں چڑھائی کی وجہ سے مسلسل ہانپ رہا تھا۔ ان کو دیکھتے ہی میں نے پوچھا: کیا کہ پانی ملے گا؟

جواب ملا: ’ کہاں گئے تھے؟

جواب دیا: کیوں؟ اپنی شناخت دکھاؤں؟

سوال: کچھ ملا؟

اس کے بعد ایک دو سوال، جس کے جواب کے بعد ہی ایمبولنس میں بٹنے والے پانی سے پیاس بجھانے کا موقع مل سکا۔

پانی پیتے پیتے خیال آیا کہ اتنی پھُرتیاں اگر امدادی کاموں میں دکھائی جاتیں تو یہ پوچھنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی کہ وہاں سے کچھ ملا کہ نہیں۔



No comments:

Post a Comment